۱۔کرنتھیوں 7:34-40 UGV

34 یوں وہ بڑی کش مکش میں مبتلا رہتا ہے۔ اِسی طرح غیرشادی شدہ خاتون اور کنواری خداوند کی فکر میں رہتی ہے کہ وہ جسمانی اور روحانی طور پر اُس کے لئے مخصوص و مُقدّس ہو۔ اِس کے مقابلے میں شادی شدہ خاتون دنیاوی فکر میں رہتی ہے کہ اپنے خاوند کو کس طرح خوش کرے۔

35 مَیں یہ آپ ہی کے فائدے کے لئے کہتا ہوں۔ مقصد یہ نہیں کہ آپ پر پابندیاں لگائی جائیں بلکہ یہ کہ آپ شرافت، ثابت قدمی اور یک سوئی کے ساتھ خداوند کی حضوری میں چلیں۔

36 اگر کوئی سمجھتا ہے، ’مَیں اپنی کنواری منگیتر سے شادی نہ کرنے سے اُس کا حق مار رہا ہوں‘ یا یہ کہ ’میری اُس کے لئے خواہش حد سے زیادہ ہے، اِس لئے شادی ہونی چاہئے‘ تو پھر وہ اپنے ارادے کو پورا کرے، یہ گناہ نہیں۔ وہ شادی کر لے۔

37 لیکن اِس کے برعکس اگر اُس نے شادی نہ کرنے کا پختہ عزم کر لیا ہے اور وہ مجبور نہیں بلکہ اپنے ارادے پر اختیار رکھتا ہے اور اُس نے اپنے دل میں فیصلہ کر لیا ہے کہ اپنی کنواری لڑکی کو ایسے ہی رہنے دے تو اُس نے اچھا کیا۔

38 غرض جس نے اپنی کنواری منگیتر سے شادی کر لی ہے اُس نے اچھا کیا ہے، لیکن جس نے نہیں کی اُس نے اَور بھی اچھا کیا ہے۔

39 جب تک خاوند زندہ ہے بیوی کو اُس سے رشتہ توڑنے کی اجازت نہیں۔ خاوند کی وفات کے بعد وہ آزاد ہے کہ جس سے چاہے شادی کر لے، مگر صرف خداوند میں۔

40 لیکن میری دانست میں اگر وہ ایسے ہی رہے تو زیادہ مبارک ہو گی۔ اور مَیں سمجھتا ہوں کہ مجھ میں بھی اللہ کا روح ہے۔