15 اور سنانے والے کس طرح دوسروں کے پاس جائیں گے اگر اُنہیں بھیجا نہ گیا؟ اِس لئے کلامِ مُقدّس فرماتا ہے، ”اُن کے قدم کتنے پیارے ہیں جو خوش خبری سناتے ہیں۔“
16 لیکن سب نے اللہ کی یہ خوش خبری قبول نہیں کی۔ یوں یسعیاہ نبی فرماتا ہے، ”اے رب، کون ہمارے پیغام پر ایمان لایا؟“
17 غرض، ایمان پیغام سننے سے پیدا ہوتا ہے، یعنی مسیح کا کلام سننے سے۔
18 تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیلیوں نے یہ پیغام نہیں سنا؟ اُنہوں نے اِسے ضرور سنا۔ کلامِ مُقدّس میں لکھا ہے،”اُن کی آواز نکل کر پوری دنیا میں سنائی دی،اُن کے الفاظ دنیا کی انتہا تک پہنچ گئے۔“
19 تو کیا اسرائیل کو اِس بات کی سمجھ نہ آئی؟ نہیں، اُسے ضرور سمجھ آئی۔ پہلے موسیٰ اِس کا جواب دیتا ہے،”مَیں خود ہی تمہیں غیرت دلاؤں گا،ایک ایسی قوم کے ذریعے جو حقیقت میں قوم نہیں ہے۔ایک نادان قوم کے ذریعے مَیں تمہیں غصہ دلاؤں گا۔“
20 اور یسعیاہ نبی یہ کہنے کی جرأت کرتا ہے،”جو مجھے تلاش نہیں کرتے تھےاُنہیں مَیں نے مجھے پانے کا موقع دیا،جو میرے بارے میں دریافت نہیں کرتے تھےاُن پر مَیں ظاہر ہوا۔“
21 لیکن اسرائیل کے بارے میں وہ فرماتا ہے،”دن بھر مَیں نے اپنے ہاتھ پھیلائے رکھےتاکہ ایک نافرمان اور سرکش قوم کا استقبال کروں۔“