16 مَیں غریبوں کا باپ تھا، اور جب کبھی اجنبی کو مقدمہ لڑنا پڑا تو مَیں غور سے اُس کے معاملے کا معائنہ کرتا تھا تاکہ اُس کا حق مارا نہ جائے۔
17 مَیں نے بےدین کا جبڑا توڑ کر اُس کے دانتوں میں سے شکار چھڑایا۔
18 اُس وقت میرا خیال تھا، ’مَیں اپنے ہی گھر میں وفات پاؤں گا، سیمرغ کی طرح اپنی زندگی کے دنوں میں اضافہ کروں گا۔
19 میری جڑیں پانی تک پھیلی اور میری شاخیں اوس سے تر رہیں گی۔
20 میری عزت ہر وقت تازہ رہے گی، اور میرے ہاتھ کی کمان کو نئی تقویت ملتی رہے گی۔‘
21 لوگ میری سن کر خاموشی سے میرے مشوروں کے انتظار میں رہتے تھے۔
22 میرے بات کرنے پر وہ جواب میں کچھ نہ کہتے بلکہ میرے الفاظ ہلکی سی بوندا باندی کی طرح اُن پر ٹپکتے رہتے۔