14 یہ سن کر بادشاہ کو بڑی دقت محسوس ہوئی۔ پورا دن وہ سوچتا رہا کہ مَیں دانیال کو کس طرح بچاؤں۔ سورج کے غروب ہونے تک وہ اُسے چھڑانے کے لئے کوشاں رہا۔
15 لیکن آخرکار وہ آدمی گروہ کی صورت میں دوبارہ بادشاہ کے حضور آئے اور کہنے لگے، ”بادشاہ کو یاد رہے کہ مادیوں اور فارسیوں کے قوانین کے مطابق جو بھی فرمان بادشاہ صادر کرے اُسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔“
16 چنانچہ بادشاہ نے حکم دیا کہ دانیال کو پکڑ کر شیروں کی ماند میں پھینکا جائے۔ ایسا ہی ہوا۔ بادشاہ بولا، ”اے دانیال، جس خدا کی عبادت تم بلاناغہ کرتے آئے ہو وہ تمہیں بچائے۔“
17 پھر ماند کے منہ پر پتھر رکھا گیا، اور بادشاہ نے اپنی مُہر اور اپنے بڑوں کی مُہریں اُس پر لگائیں تاکہ کوئی بھی اُسے کھول کر دانیال کی مدد نہ کرے۔
18 اِس کے بعد بادشاہ شاہی محل میں واپس چلا گیا اور پوری رات روزہ رکھے ہوئے گزاری۔ نہ کچھ اُس کا دل بہلانے کے لئے اُس کے پاس لایا گیا، نہ اُسے نیند آئی۔
19 جب پَو پھٹنے لگی تو وہ اُٹھ کر شیروں کی ماند کے پاس گیا۔
20 اُس کے قریب پہنچ کر بادشاہ نے غمگین آواز سے پکارا، ”اے زندہ خدا کے بندے دانیال، کیا تمہارے خدا جس کی تم بلاناغہ عبادت کرتے رہے ہو تمہیں شیروں سے بچا سکا؟“