3 اگلے دن صبح سویرے جب اشدود کے باشندے مندر میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ دجون کا مجسمہ منہ کے بل رب کے صندوق کے سامنے ہی پڑا ہے۔ اُنہوں نے دجون کو اُٹھا کر دوبارہ اُس کی جگہ پر کھڑا کیا۔
4 لیکن اگلے دن جب صبح سویرے آئے تو دجون دوبارہ منہ کے بل رب کے صندوق کے سامنے پڑا ہوا تھا۔ لیکن اِس مرتبہ بُت کا سر اور ہاتھ ٹوٹ کر دہلیز پر پڑے تھے۔ صرف دھڑ رہ گیا تھا۔
5 یہی وجہ ہے کہ آج تک دجون کا کوئی بھی پجاری یا مہمان اشدود کے مندر کی دہلیز پر قدم نہیں رکھتا۔
6 پھر رب نے اشدود اور گرد و نواح کے دیہاتوں پر سخت دباؤ ڈال کر باشندوں کو پریشان کر دیا۔ اُن میں اچانک اذیت ناک پھوڑوں کی وبا پھیل گئی۔
7 جب اشدود کے لوگوں نے اِس کی وجہ جان لی تو وہ بولے، ”لازم ہے کہ اسرائیل کے خدا کا صندوق ہمارے پاس نہ رہے۔ کیونکہ اُس کا ہم پر اور ہمارے دیوتا دجون پر دباؤ ناقابلِ برداشت ہے۔“
8 اُنہوں نے تمام فلستی حکمرانوں کو اکٹھا کر کے پوچھا، ”ہم اسرائیل کے خدا کے صندوق کے ساتھ کیا کریں؟“اُنہوں نے مشورہ دیا، ”اُسے جات شہر میں لے جائیں۔“
9 لیکن جب عہد کا صندوق جات میں چھوڑا گیا تو رب کا دباؤ اُس شہر پر بھی آ گیا۔ بڑی افرا تفری پیدا ہوئی، کیونکہ چھوٹوں سے لے کر بڑوں تک سب کو اذیت ناک پھوڑے نکل آئے۔