1 غرض یہوسفط کو بڑی دولت اور عزت حاصل ہوئی۔ اُس نے اپنے پہلوٹھے کی شادی اسرائیل کے بادشاہ اخی اب کی بیٹی سے کرائی۔
2 کچھ سال کے بعد وہ اخی اب سے ملنے کے لئے سامریہ گیا۔ اسرائیل کے بادشاہ نے یہوسفط اور اُس کے ساتھیوں کے لئے بہت سی بھیڑبکریاں اور گائےبَیل ذبح کئے۔ پھر اُس نے یہوسفط کو اپنے ساتھ رامات جِلعاد سے جنگ کرنے پر اُکسایا۔
3 اخی اب نے یہوسفط سے سوال کیا، ”کیا آپ میرے ساتھ رامات جِلعاد جائیں گے تاکہ اُس پر قبضہ کریں؟“ اُس نے جواب دیا، ”جی ضرور، ہم تو بھائی ہیں، میری قوم کو اپنی قوم سمجھیں! ہم آپ کے ساتھ مل کر لڑنے کے لئے نکلیں گے۔
4 لیکن مہربانی کر کے پہلے رب کی مرضی معلوم کر لیں۔“
5 اسرائیل کے بادشاہ نے 400 نبیوں کو بُلا کر اُن سے پوچھا، ”کیا ہم رامات جِلعاد پر حملہ کریں یا مَیں اِس ارادے سے باز رہوں؟“ نبیوں نے جواب دیا، ”جی، کریں، کیونکہ اللہ اُسے بادشاہ کے حوالے کر دے گا۔“
6 لیکن یہوسفط مطمئن نہ ہوا۔ اُس نے پوچھا، ”کیا یہاں رب کا کوئی نبی نہیں جس سے ہم دریافت کر سکیں؟“
7 اسرائیل کا بادشاہ بولا، ”ہاں، ایک تو ہے جس کے ذریعے ہم رب کی مرضی معلوم کر سکتے ہیں۔ لیکن مَیں اُس سے نفرت کرتا ہوں، کیونکہ وہ میرے بارے میں کبھی بھی اچھی پیش گوئی نہیں کرتا۔ وہ ہمیشہ بُری پیش گوئیاں سناتا ہے۔ اُس کا نام میکایاہ بن اِملہ ہے۔“ یہوسفط نے اعتراض کیا، ”بادشاہ ایسی بات نہ کہے!“
8 تب اسرائیل کے بادشاہ نے کسی ملازم کو بُلا کر حکم دیا، ”میکایاہ بن اِملہ کو فوراً ہمارے پاس پہنچا دینا!“
9 اخی اب اور یہوسفط اپنے شاہی لباس پہنے ہوئے سامریہ کے دروازے کے قریب اپنے اپنے تخت پر بیٹھے تھے۔ یہ ایسی کھلی جگہ تھی جہاں اناج گاہا جاتا تھا۔ تمام 400 نبی وہاں اُن کے سامنے اپنی پیش گوئیاں پیش کر رہے تھے۔
10 ایک نبی بنام صِدقیاہ بن کنعانہ نے اپنے لئے لوہے کے سینگ بنا کر اعلان کیا، ”رب فرماتا ہے کہ اِن سینگوں سے تُو شام کے فوجیوں کو مار مار کر ہلاک کر دے گا۔“
11 دوسرے نبی بھی اِس قسم کی پیش گوئیاں کر رہے تھے، ”رامات جِلعاد پر حملہ کریں، کیونکہ آپ ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔ رب شہر کو آپ کے حوالے کر دے گا۔“
12 جس ملازم کو میکایاہ کو بُلانے کے لئے بھیجا گیا تھا اُس نے راستے میں اُسے سمجھایا، ”دیکھیں، باقی تمام نبی مل کر کہہ رہے ہیں کہ بادشاہ کو کامیابی حاصل ہو گی۔ آپ بھی ایسی ہی باتیں کریں، آپ بھی فتح کی پیش گوئی کریں!“
13 لیکن میکایاہ نے اعتراض کیا، ”رب کی حیات کی قَسم، مَیں بادشاہ کو صرف وہی کچھ بتاؤں گا جو میرا خدا فرمائے گا۔“
14 جب میکایاہ اخی اب کے سامنے کھڑا ہوا تو بادشاہ نے پوچھا، ”میکایاہ، کیا ہم رامات جِلعاد پر حملہ کریں یا مَیں اِس ارادے سے باز رہوں؟“میکایاہ نے جواب دیا، ”اُس پر حملہ کریں، کیونکہ اُنہیں آپ کے حوالے کر دیا جائے گا، اور آپ کو کامیابی حاصل ہو گی۔“
15 بادشاہ ناراض ہوا، ”مجھے کتنی دفعہ آپ کو سمجھانا پڑے گا کہ آپ قَسم کھا کر مجھے رب کے نام میں صرف وہ کچھ سنائیں جو حقیقت ہے۔“
16 تب میکایاہ نے جواب میں کہا، ”مجھے تمام اسرائیل گلہ بان سے محروم بھیڑبکریوں کی طرح پہاڑوں پر بکھرا ہوا نظر آیا۔ پھر رب مجھ سے ہم کلام ہوا، ’اِن کا کوئی مالک نہیں ہے۔ ہر ایک سلامتی سے اپنے گھر واپس چلا جائے‘۔“
17 اسرائیل کے بادشاہ نے یہوسفط سے کہا، ”لو، کیا مَیں نے آپ کو نہیں بتایا تھا کہ یہ شخص ہمیشہ میرے بارے میں بُری پیش گوئیاں کرتا ہے؟“
18 لیکن میکایاہ نے اپنی بات جاری رکھی، ”رب کا فرمان سنیں! مَیں نے رب کو اُس کے تخت پر بیٹھے دیکھا۔ آسمان کی پوری فوج اُس کے دائیں اور بائیں ہاتھ کھڑی تھی۔
19 رب نے پوچھا، ’کون اسرائیل کے بادشاہ اخی اب کو رامات جِلعاد پر حملہ کرنے پر اُکسائے گا تاکہ وہ وہاں جا کر مر جائے؟‘ ایک نے یہ مشورہ دیا، دوسرے نے وہ۔
20 آخرکار ایک روح رب کے سامنے کھڑی ہوئی اور کہنے لگی، ’مَیں اُسے اُکساؤں گی۔‘ رب نے سوال کیا، ’کس طرح؟‘
21 روح نے جواب دیا، ’مَیں نکل کر اُس کے تمام نبیوں پر یوں قابو پاؤں گی کہ وہ جھوٹ ہی بولیں گے۔‘ رب نے فرمایا، ’تُو کامیاب ہو گی۔ جا اور یوں ہی کر!‘
22 اے بادشاہ، رب نے آپ پر آفت لانے کا فیصلہ کر لیا ہے، اِس لئے اُس نے جھوٹی روح کو آپ کے اِن تمام نبیوں کے منہ میں ڈال دیا ہے۔“
23 تب صِدقیاہ بن کنعانہ نے آگے بڑھ کر میکایاہ کے منہ پر تھپڑ مارا اور بولا، ”رب کا روح کس طرح مجھ سے نکل گیا تاکہ تجھ سے بات کرے؟“
24 میکایاہ نے جواب دیا، ”جس دن آپ کبھی اِس کمرے میں، کبھی اُس میں کھسک کر چھپنے کی کوشش کریں گے اُس دن آپ کو پتا چلے گا۔“
25 تب اخی اب بادشاہ نے حکم دیا، ”میکایاہ کو شہر پر مقرر افسر امون اور میرے بیٹے یوآس کے پاس واپس بھیج دو!
26 اُنہیں بتا دینا، ’اِس آدمی کو جیل میں ڈال کر میرے صحیح سلامت واپس آنے تک کم سے کم روٹی اور پانی دیا کریں‘۔“
27 میکایاہ بولا، ”اگر آپ صحیح سلامت واپس آئیں تو مطلب ہو گا کہ رب نے میری معرفت بات نہیں کی۔“ پھر وہ ساتھ کھڑے لوگوں سے مخاطب ہوا، ”تمام لوگ دھیان دیں!“
28 اِس کے بعد اسرائیل کا بادشاہ اخی اب اور یہوداہ کا بادشاہ یہوسفط مل کر رامات جِلعاد پر حملہ کرنے کے لئے روانہ ہوئے۔
29 جنگ سے پہلے اخی اب نے یہوسفط سے کہا، ”مَیں اپنا بھیس بدل کر میدانِ جنگ میں جاؤں گا۔ لیکن آپ اپنا شاہی لباس نہ اُتاریں۔“ چنانچہ اسرائیل کا بادشاہ اپنا بھیس بدل کر میدانِ جنگ میں آیا۔
30 شام کے بادشاہ نے رتھوں پر مقرر اپنے افسروں کو حکم دیا تھا، ”صرف اور صرف بادشاہ پر حملہ کریں۔ کسی اَور سے مت لڑنا، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔“
31 جب لڑائی چھڑ گئی تو رتھوں کے افسر یہوسفط پر ٹوٹ پڑے، کیونکہ اُنہوں نے کہا، ”یہی اسرائیل کا بادشاہ ہے!“ لیکن جب یہوسفط مدد کے لئے چلّا اُٹھا تو رب نے اُس کی سنی۔ اُس نے اُن کا دھیان یہوسفط سے کھینچ لیا،
32 کیونکہ جب دشمنوں کو معلوم ہوا کہ یہ اخی اب بادشاہ نہیں ہے تو وہ اُس کا تعاقب کرنے سے باز آئے۔
33 لیکن کسی نے خاص نشانہ باندھے بغیر اپنا تیر چلایا تو وہ اخی اب کو ایسی جگہ جا لگا جہاں زرہ بکتر کا جوڑ تھا۔ بادشاہ نے اپنے رتھ بان کو حکم دیا، ”رتھ کو موڑ کر مجھے میدانِ جنگ سے باہر لے جاؤ! مجھے چوٹ لگ گئی ہے۔“
34 لیکن چونکہ اُس پورے دن شدید قسم کی لڑائی جاری رہی، اِس لئے بادشاہ اپنے رتھ میں ٹیک لگا کر دشمن کے مقابل کھڑا رہا۔ جب سورج غروب ہونے لگا تو وہ مر گیا۔