1 یہوآخز بن یاہو یہوداہ کے بادشاہ یوآس بن اخزیاہ کی حکومت کے 23ویں سال میں اسرائیل کا بادشاہ بنا۔ اُس کی حکومت کا دورانیہ 17 سال تھا، اور اُس کا دار الحکومت سامریہ رہا۔
2 اُس کا چال چلن رب کو ناپسند تھا، کیونکہ وہ بھی یرُبعام بن نباط کے بُرے نمونے پر چلتا رہا۔ اُس نے وہ گناہ جاری رکھے جو کرنے پر یرُبعام نے اسرائیل کو اُکسایا تھا۔ اُس بُت پرستی سے وہ کبھی باز نہ آیا۔
3 اِس وجہ سے رب اسرائیل سے بہت ناراض ہوا، اور وہ شام کے بادشاہ حزائیل اور اُس کے بیٹے بن ہدد کے وسیلے سے اُنہیں بار بار دباتا رہا۔
4 لیکن پھر یہوآخز نے رب کا غضب ٹھنڈا کیا، اور رب نے اُس کی منتیں سنیں، کیونکہ اُسے معلوم تھا کہ شام کا بادشاہ اسرائیل پر کتنا ظلم کر رہا ہے۔
5 رب نے کسی کو بھیج دیا جس نے اُنہیں شام کے ظلم سے آزاد کروایا۔ اِس کے بعد وہ پہلے کی طرح سکون کے ساتھ اپنے گھروں میں رہ سکتے تھے۔
6 توبھی وہ اُن گناہوں سے باز نہ آئے جو کرنے پر یرُبعام نے اُنہیں اُکسایا تھا بلکہ اُن کی یہ بُت پرستی جاری رہی۔ یسیرت دیوی کا بُت بھی سامریہ سے ہٹایا نہ گیا۔
7 آخر میں یہوآخز کے صرف 50 گھڑسوار، 10 رتھ اور 10,000 پیادہ سپاہی رہ گئے۔ فوج کا باقی حصہ شام کے بادشاہ نے تباہ کر دیا تھا۔ اُس نے اسرائیلی فوجیوں کو کچل کر یوں اُڑا دیا تھا جس طرح دُھول اناج کو گاہتے وقت اُڑ جاتی ہے۔
8 باقی جو کچھ یہوآخز کی حکومت کے دوران ہوا، جو کچھ اُس نے کیا اور جو کامیابیاں اُسے حاصل ہوئیں وہ ’شاہانِ اسرائیل کی تاریخ‘ کی کتاب میں بیان کی گئی ہیں۔
9 جب وہ مر کر اپنے باپ دادا سے جا ملا تو اُسے سامریہ میں دفنایا گیا۔ پھر اُس کا بیٹا یہوآس تخت نشین ہوا۔
10 یہوآس بن یہوآخز یہوداہ کے بادشاہ یوآس کی حکومت کے 37ویں سال میں اسرائیل کا بادشاہ بنا۔
11 یہوآس کا چال چلن رب کو ناپسند تھا۔ وہ اُن گناہوں سے باز نہ آیا جو کرنے پر یرُبعام بن نباط نے اسرائیل کو اُکسایا تھا بلکہ یہ بُت پرستی جاری رہی۔
12 باقی جو کچھ یہوآس کی حکومت کے دوران ہوا، جو کچھ اُس نے کیا اور جو کامیابیاں اُسے حاصل ہوئیں وہ ’شاہانِ اسرائیل کی تاریخ‘ کی کتاب میں درج ہیں۔ اُس میں اُس کی یہوداہ کے بادشاہ اَمَصیاہ کے ساتھ جنگ کا ذکر بھی ہے۔
13 جب یہوآس مر کر اپنے باپ دادا سے جا ملا تو اُسے سامریہ میں شاہی قبر میں دفنایا گیا۔ پھر یرُبعام دوم تخت پر بیٹھ گیا۔
14 یہوآس کے دورِ حکومت میں الیشع شدید بیمار ہو گیا۔ جب وہ مرنے کو تھا تو اسرائیل کا بادشاہ یہوآس اُس سے ملنے گیا۔ اُس کے اوپر جھک کر وہ خوب رو پڑا اور چلّایا، ”ہائے، میرے باپ، میرے باپ۔ اسرائیل کے رتھ اور اُس کے گھوڑے!“
15 الیشع نے اُسے حکم دیا، ”ایک کمان اور کچھ تیر لے آئیں۔“ بادشاہ کمان اور تیر الیشع کے پاس لے آیا۔
16 پھر الیشع بولا، ”کمان کو پکڑیں۔“ جب بادشاہ نے کمان کو پکڑ لیا تو الیشع نے اپنے ہاتھ اُس کے ہاتھوں پر رکھ دیئے۔
17 پھر اُس نے حکم دیا، ”مشرقی کھڑکی کو کھول دیں۔“ بادشاہ نے اُسے کھول دیا۔ الیشع نے کہا، ”تیر چلائیں!“ بادشاہ نے تیر چلایا۔ الیشع پکارا، ”یہ رب کا فتح دلانے والا تیر ہے، شام پر فتح کا تیر! آپ افیق کے پاس شام کی فوج کو مکمل طور پر تباہ کر دیں گے۔“
18 پھر اُس نے بادشاہ کو حکم دیا، ”اب باقی تیروں کو پکڑیں۔“ بادشاہ نے اُنہیں پکڑ لیا۔ پھر الیشع بولا، ”اِن کو زمین پر پٹخ دیں۔“ بادشاہ نے تین مرتبہ تیروں کو زمین پر پٹخ دیا اور پھر رُک گیا۔
19 یہ دیکھ کرمردِ خدا غصے ہو گیا اور بولا، ”آپ کو تیروں کو پانچ یا چھ مرتبہ زمین پر پٹخنا چاہئے تھا۔ اگر ایسا کرتے تو شام کی فوج کو شکست دے کر مکمل طور پر تباہ کر دیتے۔ لیکن اب آپ اُسے صرف تین مرتبہ شکست دیں گے۔“
20 تھوڑی دیر کے بعد الیشع فوت ہوا اور اُسے دفن کیا گیا۔ اُن دنوں میں موآبی لٹیرے ہر سال موسمِ بہار کے دوران ملک میں گھس آتے تھے۔
21 ایک دن کسی کا جنازہ ہو رہا تھا تو اچانک یہ لٹیرے نظر آئے۔ ماتم کرنے والے لاش کو قریب کی الیشع کی قبر میں پھینک کر بھاگ گئے۔ لیکن جوں ہی لاش الیشع کی ہڈیوں سے ٹکرائی اُس میں جان آ گئی اور وہ آدمی کھڑا ہو گیا۔
22 یہوآخز کے جیتے جی شام کا بادشاہ حزائیل اسرائیل کو دباتا رہا۔
23 توبھی رب کو اپنی قوم پر ترس آیا۔ اُس نے اُن پر رحم کیا، کیونکہ اُسے وہ عہد یاد رہا جو اُس نے ابراہیم، اسحاق اور یعقوب سے باندھا تھا۔ آج تک وہ اُنہیں تباہ کرنے یا اپنے حضور سے خارج کرنے کے لئے تیار نہیں ہوا۔
24 جب شام کا بادشاہ حزائیل فوت ہوا تو اُس کا بیٹا بن ہدد تخت نشین ہوا۔
25 تب یہوآس بن یہوآخز نے بن ہدد سے وہ اسرائیلی شہر دوبارہ چھین لئے جن پر بن ہدد کے باپ حزائیل نے قبضہ کر لیا تھا۔ تین بار یہوآس نے بن ہدد کو شکست دے کر اسرائیلی شہر واپس لے لئے۔