1 اَمَصیاہ بن یوآس اسرائیل کے بادشاہ یہوآس بن یہوآخز کے دوسرے سال میں یہوداہ کا بادشاہ بنا۔
2 اُس وقت وہ 25 سال کا تھا۔ وہ یروشلم میں رہ کر 29 سال حکومت کرتا رہا۔ اُس کی ماں یہوعدان یروشلم کی رہنے والی تھی۔
3 جو کچھ اَمَصیاہ نے کیا وہ رب کو پسند تھا، اگرچہ وہ اُتنی وفاداری سے رب کی پیروی نہیں کرتا تھا جتنی اُس کے باپ داؤد نے کی تھی۔ ہر کام میں وہ اپنے باپ یوآس کے نمونے پر چلا،
4 لیکن اُس نے بھی اونچی جگہوں کے مندروں کو دُور نہ کیا۔ عام لوگ اب تک وہاں قربانیاں چڑھاتے اور بخور جلاتے رہے۔
5 جوں ہی اَمَصیاہ کے پاؤں مضبوطی سے جم گئے اُس نے اُن افسروں کو سزائے موت دی جنہوں نے باپ کو قتل کر دیا تھا۔
6 لیکن اُن کے بیٹوں کو اُس نے زندہ رہنے دیا اور یوں موسوی شریعت کے تابع رہا جس میں رب فرماتا ہے، ”والدین کو اُن کے بچوں کے جرائم کے سبب سے سزائے موت نہ دی جائے، نہ بچوں کو اُن کے والدین کے جرائم کے سبب سے۔ اگر کسی کو سزائے موت دینی ہو تو اُس گناہ کے سبب سے جو اُس نے خود کیا ہے۔“
7 اَمَصیاہ نے ادومیوں کو نمک کی وادی میں شکست دی۔ اُس وقت اُن کے 10,000 فوجی اُس سے لڑنے آئے تھے۔ جنگ کے دوران اُس نے سلع شہر پر قبضہ کر لیا اور اُس کا نام یُقتئیل رکھا۔ یہ نام آج تک رائج ہے۔
8 اِس فتح کے بعد اَمَصیاہ نے اسرائیل کے بادشاہ یہوآس بن یہوآخز کو پیغام بھیجا، ”آئیں، ہم ایک دوسرے کا مقابلہ کریں!“
9 لیکن اسرائیل کے بادشاہ یہوآس نے جواب دیا، ”لبنان میں ایک کانٹےدار جھاڑی نے دیودار کے ایک درخت سے بات کی، ’میرے بیٹے کے ساتھ اپنی بیٹی کا رشتہ باندھو۔‘ لیکن اُسی وقت لبنان کے جنگلی جانوروں نے اُس کے اوپر سے گزر کر اُسے پاؤں تلے کچل ڈالا۔
10 ملکِ ادوم پر فتح پانے کے سبب سے آپ کا دل مغرور ہو گیا ہے۔ لیکن میرا مشورہ ہے کہ آپ اپنے گھر میں رہ کر فتح میں حاصل ہوئی شہرت کا مزہ لینے پر اکتفا کریں۔ آپ ایسی مصیبت کو کیوں دعوت دیتے ہیں جو آپ اور یہوداہ کی تباہی کا باعث بن جائے؟“
11 لیکن اَمَصیاہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھا، اِس لئے یہوآس اپنی فوج لے کر یہوداہ پر چڑھ آیا۔ بیت شمس کے پاس اُس کا یہوداہ کے بادشاہ کے ساتھ مقابلہ ہوا۔
12 اسرائیل کی فوج نے یہوداہ کی فوج کو شکست دی، اور ہر ایک اپنے اپنے گھر بھاگ گیا۔
13 اسرائیل کے بادشاہ یہوآس نے یہوداہ کے بادشاہ اَمَصیاہ بن یوآس بن اخزیاہ کو وہیں بیت شمس میں گرفتار کر لیا۔ پھر وہ یروشلم گیا اور شہر کی فصیل افرائیم نامی دروازے سے کونے کے دروازے تک گرا دی۔ اِس حصے کی لمبائی تقریباً 600 فٹ تھی۔
14 جتنا بھی سونا، چاندی اور قیمتی سامان رب کے گھر اور شاہی محل کے خزانوں میں تھا اُسے اُس نے پورے کا پورا چھین لیا۔ لُوٹا ہوا مال اور بعض یرغمالوں کو لے کر وہ سامریہ واپس چلا گیا۔
15 باقی جو کچھ یہوآس کی حکومت کے دوران ہوا، جو کچھ اُس نے کیا اور جو کامیابیاں اُسے حاصل ہوئیں وہ ’شاہانِ اسرائیل کی تاریخ‘ کی کتاب میں درج ہیں۔ اُس میں اُس کی یہوداہ کے بادشاہ اَمَصیاہ کے ساتھ جنگ کا ذکر بھی ہے۔
16 جب یہوآس مر کر اپنے باپ دادا سے جا ملا تو اُسے سامریہ میں اسرائیل کے بادشاہوں کی قبر میں دفنایا گیا۔ پھر اُس کا بیٹا یرُبعام دوم تخت نشین ہوا۔
17 اسرائیل کے بادشاہ یہوآس بن یہوآخز کی موت کے بعد یہوداہ کا بادشاہ اَمَصیاہ بن یوآس مزید 15 سال جیتا رہا۔
18 باقی جو کچھ اَمَصیاہ کی حکومت کے دوران ہوا وہ ’شاہانِ یہوداہ کی تاریخ‘ کی کتاب میں درج ہے۔
19 ایک دن لوگ یروشلم میں اُس کے خلاف سازش کرنے لگے۔ آخرکار اُس نے فرار ہو کر لکیس میں پناہ لی، لیکن سازش کرنے والوں نے اپنے لوگوں کو اُس کے پیچھے بھیجا، اور وہ وہاں اُسے قتل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
20 اُس کی لاش گھوڑے پر اُٹھا کر یروشلم لائی گئی جہاں اُسے شہر کے اُس حصے میں جو ’داؤد کا شہر‘ کہلاتا ہے خاندانی قبر میں دفنایا گیا۔
21 یہوداہ کے تمام لوگوں نے اَمَصیاہ کے بیٹے عُزیّاہ کو باپ کے تخت پر بٹھا دیا۔ اُس کی عمر 16 سال تھی
22 جب اُس کا باپ مر کر اپنے باپ دادا سے جا ملا۔ بادشاہ بننے کے بعد عُزیّاہ نے ایلات شہر پر قبضہ کر کے اُسے دوبارہ یہوداہ کا حصہ بنا لیا۔ اُس نے شہر میں بہت تعمیری کام کروایا۔
23 یہوداہ کے بادشاہ اَمَصیاہ بن یوآس کے 15ویں سال میں یرُبعام بن یہوآس اسرائیل کا بادشاہ بنا۔ اُس کی حکومت کا دورانیہ 41 سال تھا، اور اُس کا دار الحکومت سامریہ رہا۔
24 اُس کا چال چلن رب کو ناپسند تھا۔ وہ اُن گناہوں سے باز نہ آیا جو کرنے پر نباط کے بیٹے یرُبعام اوّل نے اسرائیل کو اُکسایا تھا۔
25 یرُبعام دوم لبو حمات سے لے کر بحیرۂ مُردار تک اُن تمام علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر سکا جو پہلے اسرائیل کے تھے۔ یوں وہ وعدہ پورا ہوا جو رب اسرائیل کے خدا نے اپنے خادم جات حِفر کے رہنے والے نبی یونس بن امِتّی کی معرفت کیا تھا۔
26 کیونکہ رب نے اسرائیل کی نہایت بُری حالت پر دھیان دیا تھا۔ اُسے معلوم تھا کہ چھوٹے بڑے سب ہلاک ہونے والے ہیں اور کہ اُنہیں چھڑانے والا کوئی نہیں ہے۔
27 رب نے کبھی نہیں کہا تھا کہ مَیں اسرائیل قوم کا نام و نشان مٹا دوں گا، اِس لئے اُس نے اُنہیں یرُبعام بن یہوآس کے وسیلے سے نجات دلائی۔
28 باقی جو کچھ یرُبعام دوم کی حکومت کے دوران ہوا، جو کچھ اُس نے کیا اور جو جنگی کامیابیاں اُسے حاصل ہوئیں اُن کا ذکر ’شاہانِ اسرائیل کی تاریخ‘ کی کتاب میں ہوا ہے۔ اُس میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اُس نے کس طرح دمشق اور حمات پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
29 جب یرُبعام مر کر اپنے باپ دادا سے جا ملا تو اُسے سامریہ میں بادشاہوں کی قبر میں دفنایا گیا۔ پھر اُس کا بیٹا زکریاہ تخت نشین ہوا۔