1 اسرائیل کے کچھ بزرگ مجھ سے ملنے آئے اور میرے سامنے بیٹھ گئے۔
2 تب رب مجھ سے ہم کلام ہوا،
3 ”اے آدم زاد، اِن آدمیوں کے دل اپنے بُتوں سے لپٹے رہتے ہیں۔ جو چیزیں اُن کے لئے ٹھوکر اور گناہ کا باعث ہیں اُنہیں اُنہوں نے اپنے منہ کے سامنے ہی رکھا ہے۔ تو پھر کیا مناسب ہے کہ مَیں اُنہیں جواب دوں جب وہ مجھ سے دریافت کرنے آتے ہیں؟
4 اُنہیں بتا، ’رب قادرِ مطلق فرماتا ہے، یہ لوگ اپنے بُتوں سے لپٹے رہتے اور وہ چیزیں اپنے منہ کے سامنے رکھتے ہیں جو ٹھوکر اور گناہ کا باعث ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ نبی کے پاس بھی جاتے ہیں تاکہ مجھ سے معلومات حاصل کریں۔ جو بھی اسرائیلی ایسا کرے اُسے مَیں خود جو رب ہوں جواب دوں گا، ایسا جواب جو اُس کے متعدد بُتوں کے عین مطابق ہو گا۔
5 مَیں اُن سے ایسا سلوک کروں گا تاکہ اسرائیلی قوم کے دل کو مضبوطی سے پکڑ لوں۔ کیونکہ اپنے بُتوں کی خاطر سب کے سب مجھ سے دُور ہو گئے ہیں۔‘
6 چنانچہ اسرائیلی قوم کو بتا، ’رب قادرِ مطلق فرماتا ہے کہ توبہ کرو! اپنے بُتوں اور تمام مکروہ رسم و رواج سے منہ موڑ کر میرے پاس واپس آ جاؤ۔
7 اُس کے انجام پر دھیان دو جو ایسا نہیں کرے گا، خواہ وہ اسرائیلی یا اسرائیل میں رہنے والا پردیسی ہو۔ اگر وہ مجھ سے دُور ہو کر اپنے بُتوں سے لپٹ جائے اور وہ چیزیں اپنے سامنے رکھے جو ٹھوکر اور گناہ کا باعث ہیں تو جب وہ نبی کی معرفت مجھ سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تو مَیں، رب اُسے مناسب جواب دوں گا۔
8 مَیں ایسے شخص کا سامنا کر کے اُس سے یوں نپٹ لوں گا کہ وہ دوسروں کے لئے عبرت انگیز مثال بن جائے گا۔ مَیں اُسے یوں مٹا دوں گا کہ میری قوم میں اُس کا نام و نشان تک نہیں رہے گا۔ تب تم جان لو گے کہ مَیں ہی رب ہوں۔
9 اگر کسی نبی کو کچھ سنانے پر اُکسایا گیا جو میری طرف سے نہیں تھا تو یہ اِس لئے ہوا کہ مَیں، رب نے خود اُسے اُکسایا۔ ایسے نبی کے خلاف مَیں اپنا ہاتھ اُٹھا کر اُسے یوں تباہ کروں گا کہ میری قوم میں اُس کا نام و نشان تک نہیں رہے گا۔
10 دونوں کو اُن کے قصور کی مناسب سزا ملے گی، نبی کو بھی اور اُسے بھی جو ہدایت پانے کے لئے اُس کے پاس آتا ہے۔
11 تب اسرائیلی قوم نہ مجھ سے دُور ہو کر آوارہ پھرے گی، نہ اپنے آپ کو اِن تمام گناہوں سے آلودہ کرے گی۔ وہ میری قوم ہوں گے، اور مَیں اُن کا خدا ہوں گا۔ یہ رب قادرِ مطلق کا فرمان ہے‘۔“
12 رب مجھ سے ہم کلام ہوا،
13 ”اے آدم زاد، فرض کر کہ کوئی ملک بےوفا ہو کر میرا گناہ کرے، اور مَیں کال کے ذریعے اُسے سزا دے کر اُس میں سے انسان و حیوان مٹا ڈالوں۔
14 خواہ ملک میں نوح، دانیال اور ایوب کیوں نہ بستے توبھی ملک نہ بچتا۔ یہ آدمی اپنی راست بازی سے صرف اپنی ہی جانوں کو بچا سکتے۔ یہ رب قادرِ مطلق کا فرمان ہے۔
15 یا فرض کر کہ مَیں مذکورہ ملک میں وحشی درندوں کو بھیج دوں جو اِدھر اُدھر پھر کر سب کو پھاڑ کھائیں۔ ملک ویران و سنسان ہو جائے اور جنگلی درندوں کی وجہ سے کوئی اُس میں سے گزرنے کی جرأت نہ کرے۔
16 میری حیات کی قَسم، خواہ مذکورہ تین راست باز آدمی ملک میں کیوں نہ بستے توبھی اکیلے ہی بچتے۔ وہ اپنے بیٹے بیٹیوں کو بھی بچا نہ سکتے بلکہ پورا ملک ویران و سنسان ہوتا۔ یہ رب قادرِ مطلق کا فرمان ہے۔
17 یا فرض کر کہ مَیں مذکورہ ملک کو جنگ سے تباہ کروں، مَیں تلوار کو حکم دوں کہ ملک میں سے گزر کر انسان و حیوان کو نیست و نابود کر دے۔
18 میری حیات کی قَسم، خواہ مذکورہ تین راست باز آدمی ملک میں کیوں نہ بستے وہ اکیلے ہی بچتے۔ وہ اپنے بیٹے بیٹیوں کو بھی بچا نہ سکتے۔ یہ رب قادرِ مطلق کا فرمان ہے۔
19 یا فرض کر کہ مَیں اپنا غصہ ملک پر اُتار کر اُس میں مہلک وبا یوں پھیلا دوں کہ انسان و حیوان سب کے سب مر جائیں۔
20 میری حیات کی قَسم، خواہ نوح، دانیال اور ایوب ملک میں کیوں نہ بستے توبھی وہ اپنے بیٹے بیٹیوں کو بچا نہ سکتے۔ وہ اپنی راست بازی سے صرف اپنی ہی جانوں کو بچاتے۔ یہ رب قادرِ مطلق کا فرمان ہے۔
21 اب یروشلم کے بارے میں رب قادرِ مطلق کا فرمان سنو! یروشلم کا کتنا بُرا حال ہو گا جب مَیں اپنی چار سخت سزائیں اُس پر نازل کروں گا۔ کیونکہ انسان و حیوان جنگ، کال، وحشی درندوں اور مہلک وبا کی زد میں آ کر ہلاک ہو جائیں گے۔
22 توبھی چند ایک بچیں گے، کچھ بیٹے بیٹیاں جلاوطن ہو کر بابل میں تمہارے پاس آئیں گے۔ جب تم اُن کا بُرا چال چلن اور حرکتیں دیکھو گے تو تمہیں تسلی ملے گی کہ ہر آفت مناسب تھی جو مَیں یروشلم پر لایا۔
23 اُن کا چال چلن اور حرکتیں دیکھ کر تمہیں تسلی ملے گی، کیونکہ تم جان لو گے کہ جو کچھ بھی مَیں نے یروشلم کے ساتھ کیا وہ بلاوجہ نہیں تھا۔ یہ رب قادرِ مطلق کا فرمان ہے۔“